بچوں کی تربیت کے حوالے سے بدلتے نظریات نے سمجھ دار والدین کو عجیب مغالطے میں ڈال دیا ہے۔ گزشتہ صدی کے آغاز تک یہ نظریہ رائج تھا کہ طاقت استعمال نہ کرنے سے بچے کی تربیت میں خرابیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں گھر کے سربراہ کی تابع داری اور اس کے حکم کی تعمیل لازم تھی۔ بچوں کی کسی غلطی پر عذر سنا نہیں جاتا بلکہ سزا ہی دی جاتی تھی۔ بچے بہت کم وقت گھر پر والدین کے ساتھ گزارتے تھے۔ امیر گھرانوں میں بچے آیائوں اور نوکروں کے رحم و کرم پر ہوتے تھے جبکہ غریب گھرانوں کے بچے جسمانی سرگرمیوں میں یا گھر سے باہر کھیتوں وغیرہ میں کھیل کود میں مصروف رہتے تھے۔ آج کل بچے زیادہ تر وقت والدین کی قربت میں گزارتے ہیں۔ اس لئے بچوں میں نظم و ضبط کا معاملہ زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے۔
حالیہ دور میں بچوں کی نشوونما کے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا جاچکا ہے والدین بہتر جانتے ہیں کہ بچے کیسے سیکھتے ہیں اور کس طرح بچپن کے احساسات و خیالات، مستقبل کی خواہشات اور رحجانات پراثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ جاننے کے بعد اب والدین پریشان ہیں کہ اچھی تربیت کیلئے صحیح طور پر عمل کیونکر اور کیسے اختیار کیا جائے؟ بچوں کی نشوونما کے حوالے سے مختلف فلسفہ، بہت زیادہ نظم و ضبط سے لے کر بہت کم نظم وضبط تک۔ اس سلسلے میں والدین کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنی Common sense استعمال کریں۔ بہت زیادہ نظم و ضبط بھی نقصان دہ ہے اور بہت کم بھی۔ اس بات کے کئی شواہد موجود ہیں کہ جرائم پیشہ افراد کا تعلق ایسے گھرانوں سے ہوتا ہے جہاں بچے شفقت و محبت سے محروم رہتے ہیں۔ ان کو مارا پیٹا جاتا ہے اور بات بات پر سزا دے کر غیر ذمہ دارانہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ نظم و ضبط کے نام پر کیا جاتا ہے اور جہاں معاملہ اس کے برعکس ہو وہاں بھی نتائج کچھ مختلف نہیں ہیں۔ بدقسمتی سے پہلے طبقے سے مختلف دوسرے طبقے کے افراد بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ بچوں کے ساتھ بے جالاڈ پیار کرکے ان کو خراب کرنے کے اثرات بلوغت کے بعد چڑچڑے پن، بے سکونی اور بے اطمینانی کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
مذکورہ بالا دونوں راستوں کے بجائے درمیانی راستہ اختیار کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے لیکن بااصول اور مستقل مزاج والدین اپنے اور بچوں کے درمیان باہمی اعتماد اور عزت و احترام کی فضا پیدا کرکے اس کوشش کا آغاز کرسکتے ہیں اس قسم کی فضا میں بچہ پورے گھر پر حکمرانی کرسکتا ہے اور نہ ہی والدین بچے کے خلاف محاذ بناسکتے ہیں بلکہ بچے کی معصوم خواہشات کا احترام کیا جاتا ہے جس طرح ماں بچے کی زندگی کے ابتدائی ایام میں خودکو بچے کی ضروریات کے مطابق ڈھال لیتی ہے، بچہ بھی خود کو ماں کی توقعات کے مطابق خود کو ڈھالنا سیکھ لیتا ہے۔ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جاتا ہے وہ اپنے جذبات پر قابو رکھنا سیکھ جاتا ہے، صابر و شاکر ہوجاتا ہے،عادات و اطوار کا مطلب جاننا شروع کردیتا ہے، ایسے میں وہ بتدریج نظم و ضبط کا عادی ہوجاتا ہے۔ ان ابتدائی سالوں میں والدین کو مستقل مزاج ہونا چاہیے۔ وہ باہمی رضا مندی کے ساتھ اس معیار کا تعین کرلیں جو وہ اپنے گھر میں رائج کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایک فریق بہت ہی رحم دل، نرم مزاج اور دوسرا بہت سخت مزاج ہو تو ا پنے ماحول میں ایک منتشر مزاج اور شریر قسم کا بچہ ہی حاصل ہوسکتا ہے۔ ایسے میں والدین اپنے بچے کو شرارتی اور برے بچے کے القابات سے نوازتے ہیں یا پھر کہتے ہیں کہ ’’ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ اس بچے کے ساتھ کیا کریں‘‘۔ اصل میں بچہ خود بھی نہیں جانتا کہ وہ اپنے ساتھ کیا کرے۔بعض اوقات تھوڑی سی سمجھ داری اور سمجھ بوجھ سے نظم و ضبط کا معیار بہترین انداز میں مقرر کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر ناپسندیدگی کے جذبات کا اظہار بہت ابتدائی عمر میں ہی شروع ہوجاتا ہے۔ در حقیقت بچہ یہ نہیں جانتا کہ وہ اپنے جذبات کااظہار کس طرح کرے۔ بچے کی یہ مشکل آہستہ آہستہ آسان بنائی جاسکتی ہے کہ اسے یہ سمجھنے اور سیکھنے میں مدد دی جائے کہ اس کے والدین اس سے امید کرتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار غلط رویے سے نہیں کریگا۔ مارنا، بدمزاجی یا چڑچڑاپن، باغیانہ طبیعت کی علامت ہیں۔ ایسی صورت میں بچے کی عمر ا ور ذہنی سطح کے مطابق اس کو مناسب طریقے سے Deal کیا جائے۔
چھوٹے بچے میں عداوتی احساسات کا ہونا اکثر اس کو تباہی تک لے جاتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ اس کو کچھ ایسے کھلونے اور غبارے دئیے جائیں جن کو توڑ پھوڑ کرکے وہ اپنے اندر کی بھڑاس نکال سکے۔ اگر وہ اپنے اوردوسروں کے کھلونے غلطی سے توڑ دیتا ہے تو اس کو سزا مت دیں اور اگر سزادینا ضروری ہوتو یہ سزا بلاتوقف اور جرم سے مطابقت رکھنے والی ہوتاکہ بچہ اپنی غلطی کو سمجھ سکے اور حقیقت جان سکے کہ اس کا اس قسم کا رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔ سزا نہ جسمانی ہو اور نہ ہی طویل۔ والدین کو ایک اور بڑے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے اور وہ سوال کرتے ہیں کہ ’’ ہمیں بچے کے ساتھ کس حد تک بحث کرنی چاہیے یا دلائل کے ذریعے اپنی بات سمجھانی چاہیے؟‘‘ اس کا جواب بچے کی عمر، مزاج اور عام گھریلو ماحول پر منحصر ہوتا ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں بچے کو’’نہیں‘‘ کہنے کی عادت ہوتی ہے۔ ان کی عمر بحث مباحثے کیلئے بہت کم ہوتی ہے، اس لئے اس سے گریز ہی بہتر ہے۔ کسی بھی حکم کے لئے سادہ سی وجہ بیان کی جاسکتی ہے لیکن والدین کو یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ حکم یا احکامات کی نوعیت اسی طرح کی ہوکہ ان کی تعمیل ہوجائے۔ سخت پالیسی رکھنا لازمی ہے لیکن ساتھ ساتھ اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کی نشوونما کے اس مرحلے پر اس سے بہت زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کو کام سے آگاہ کریں اگر ا س کو کوئی اعتراض ہوگا تو و فوراً بتادے گا۔ بچہ جوں جوں بڑا ہوتا جاتا ہے احکامات کو سمجھنے کی اس کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ والدین میں سے کوئی بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ ان کا بچہ بغیر کسی پس و پیش کے اندھا دھند احکامات کی تعمیل کرنے والا ہو۔ ان والدین کے بچے ان کا بہت احترام کرتے ہیں جو بچوں کے احساسات کو سمجھتے ہیں۔ نئے نئے تجربات کی طرف ان کے رحجانات کی قدر کرتے ہیں۔ اگر بچہ مناسب دلیل پیش کرے تو وہ اپنا کوئی بھی حکم واپس لینے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ محض ڈسپلن کی خاطر بچے کی خواہشات اور رحجانات کا گلا گھونٹنا عقلمندی نہیں ہے۔ام میمونہ‘ فیصل آباد
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں